اسّی کی دہائی کا گوجرانوالہ

آج مجھے  اسّی کی دہائی کا گوجرانوالہ کا ایک کردار یاد آ گیا ،۔

کیا دلچسپ انسان تھا  ،۔

پاء منّو !،۔

اصلی نام مجھے یاد نہیں ، اس کی بسیں چلتی تھی  گجرات سے لاہور ،۔

گوجرانوالہ کے لاری اڈے پر سارا دن سفید کپڑے پہنے مختلف مکینکوں کے پاس پھرتا رہتا تھا ،۔

پہس مکھ ، یار باش  اور حاضر جواب ،۔

 پا منّو نے گوجرانوالہ کے ریجنٹ سیمنا میں منور ظریف کی فلم چکر باز لگا لی ،۔

سارے لاری اڈے پر مشہور ہو گیا کہ پاء منّو نے فلم لگائی ہے اور اج کل پاء منو سیمنا میں ہی ہوتا ہے ،۔

گوجرانوالہ کے لاری اڈے  کے مکینکوں کے سارے شاگرد لوگ  پاء منو کے پاس فلم دیکھنے کے لئے گئے ، کئی تو کئی کئی دفعہ گئے ،۔

ہر دفعہ مفت فلم اور  کھانا کھا کر واپس آتے تھے ،۔

مجھے خود تو جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔

لیکن آس پاس کے سارے منڈے پا منو سے کھانا کھا کر آئے تھے ،۔

تین ہفتے بعد جب فلم اتری تو پاء منو  پھر لاری اڈے پر نظر آیا ،۔

مجھے پوچھتا ہے ،۔

اوئے توں نئیں آیا فلم ویکھن ؟

تو میں نے اس سے پوچھا 

پاء منو فلم لگانے پر کمائی تو بہت ہوتی ہو گی ؟

کتنے پیسے کمائے ہیں تین ہفتے میں ؟

پاء منو نے  بڑے فخر سے بتایا : پچہتر روپے (تقریباً دس امریکی ڈالر)!،۔

میں نے بڑی حیرانی سے پوچھا صرف پچہتر روپے ؟ کیا یہ بہت کم نہیں ہیں ؟

پاء منو نے تاریخی جواب دیا ، ان الفاظ کی بازکشت اج بھی میرے ذہن میں  گھونجتی ہے ،۔

لے ، سارے شہر دے یار خوش کر کے فیر وی کجھ پیسے بچ گئے نے ، تینوں اے تھوڑے لغدے نے پئے !!،۔

یعنی سارے شہر کے دوستوں کو خوشیاں دے کر پیسے بھی بچ گئے ہیں یہ تھوڑی بات ہے م۔

اس سوچ کے اس بندے سے وابستہ کچھ اور یادیں بھی ہیں کہ

لاری اڈے پر برقعہ پہنے بچہ اٹھائے بھیک مانگنے والی جب آتی تھیں تو سب کو بھائی کہہ کر پکارتی تھیں ،۔

تاش کھیلتے ہوئے  پاء منو کو جب ایک بی بی نے بھائی کہہ کر مخاطب کر بھیک کا سوال کیا تو پاء منو بدک گیا 

اور اس بی بی کو کہتا ہے ،۔

بیٹھ جا پہن میری ، اور بتا کہاں ہے میرا بہنوئی  پئین چ۰۰ !، کیا کرتا ہے وہ کتی کا ب۰ ۰، جس نے میری بہن کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے،۔

ابھی بتا یا پھر مجھے ساتھ لے کر چل کہیں اس کو نوکری دیتا ہوں ، اگر معذور ہے تو اس کا علاج کرواتا ہوں ۔

مجھے اس عورت کا جان چھڑا کر بھاگنا اب تک یاد ہے ،۔

اُس زمانے میں سفید پوش بھکاری ہوتے تھے جو ٹولے میں ہوتے تھے ایک عورت ایک بزرگ اور ایک جوان کے ساتھ ایک بچہ !،۔

ان کا کہنا ہوتا تھا کہ فیصل آباد سے آئے ہیں 

یہان گوجرانوالہ میں جیب کٹ گئی ہے ،۔

واپسی کا کرایہ نہیں ہے ،۔

مستعار پیسوں کے نام پر بھیک نما کام کرتے تھے ،۔

ان لوگون کا کہنا ہوتا تھا کہ اپ ہمیں مستعار پیسے دیں ہم گھر پہنچ کر آپ کے پیسے اپ کو منی آڈر کر دیں گے ،۔

ایک دن  پاء منو اس خاندان کو ٹانگے پر بٹھا کر لاری اڈے لے آیا 

اور فیصل آباد جانے والی  بس کے پاس جا کر کنڈکٹر اور ڈائیور سے پوچھتا ہے کیا تم مجھے جانتے ہو ؟

ڈائیور اور کلینڈر نے بیک زبان کہا  ، ہاں پاء منو  کیوں نہیں !،۔

تو پھر یہ میرے عزیز ہیں ان کو فیصل آباد تک لے کر جانا ہے ،۔

اور خبردار اگر ان سے کرایہ لیا یا کہ ان کو فیصل آباد سے پہلے کہیں اترنے دیا ،۔

اب پتہ نہیں کہ اس خاندان پر کیا بیتی لیکن پاء منو نے ان کو فیصل آباد روانہ کر دیا تھا ،۔

اور مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ یہیں کہیں گوجرانوالہ کے نوحی گاؤں کے تھے 

اور بس کے عملے نے بڑی ذمہ داری سے ان کو فیصل آباد پہنچا دیا ہو گا ،۔

اب واپسی کا کرایہ فصل آبادیوں سے مانگیں گے ،۔

پاء مٓنّو کی حاجی بشیر کے ساتھ نہیں بنتی تھی ،۔

پاء منو کا ایک بہنوئی بھی تھا حاجی بشیر ،۔

یہ بندہ بھی اپنی  جگہ ایک کریکٹر تھا ،۔

اس پر پھر کبھی لکھوں گا ،۔

بس اتنا سمجھ لیں کہ حاجی بشیر پاء منو کے بچوں کا پھپھڑ تھا ،۔

نئے سال 2018ء کی نیک خواہشات ،۔

جاپان سے اپ سب کو نئے سال کی نیک خواہشات ،۔

اللہ کرئے ،اگلے سال تہانوں اینیاں خوشیاں ملن کہ تہانوں دٗکھاں دے سپیلنگ ای بھل جان ،۔

رب کرے تہاڈے کم  کاروبار اینہے چلن کہ تہانوں منشی گنن لئی وی منشی رکھنے  پئین ،۔

گوجرانوالہ کے سارے گاؤں دیہات وسدے رہن تے فصلان دی بہتات ہو جائے ،۔

گوجرانوالے دییاں فیکٹریاں ، کارخانے دنیا وچ اپنا نام پیدا کرن ،۔

************************

میں یہان جاپان سے اکیلا اس سائٹ پر کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں ،۔

میری خواہش ہے کہ اپنے شہر گوجرانوالہ سے کچھ جوان اگے آئیں اور اس سائیٹ کا انتظام سنبھال لیں ،۔

گاما اور بیوی

گامے کی بیوی کی برتھ ڈے پر گاما مجبور کردیا گیا
کہ
بیوی کو کوئی نیا سوٹ دلائے ،۔
گاما بیوی کے ساتھ آرائیناں والی گلی میں گیا ، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ، گوجرانوالہ کی گلیاں کیچڑ میں لوگ بھالے پانچئے اٹھائے چل رہے تھے ۔
گامے کی بیوی ایک سے دوسری دوکان میں داخل ہوتی ہے ، تیسری سے چوتھی سے پھر پہلی دوکان میں ، کوئی پانچ سو سوٹ نکلوا کر دیکھتی ہے ،۔
جن میں سے سو کے قریب پر کنفیوز ہو کر اخر میں کوئی پچیس جوڑے منتخب کرتی ہے ،۔
یہاں وہ گامے کو بلا کر ان پچیس میں سے کوئی پانچ علیحدہ کرنے کی تجویز مانگ کر خود ہی علیحدہ کر کے تاثر دیتی ہے کہ گامے نے علیحدہ کئے ہیں ، فائینلی کوئی پانچ گھنٹے کی خجل خواری کے بعد ایک سوٹ منتخب کر کے دیتی ہے
گاما رقم کی ادائیگی کرتا ہے ،۔
دوکان سے باہر نکل کر پرانے جی ٹی ایس کے اڈے پر بنی مفت کی کار پارکنگ میں سے کار نکالتے ہوئے بیوی کو کہتا ہے ،۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ حضرت آدم بھی کیا لکی مرد تھے کہ ان کے زمانے میں پتوں سے تن ڈھانپتے تھے ،۔
ان کو اماں حوّا کے لباس کے لئے میری طرح خجل خوار نہیں ہوتا پڑتا ہو گا ،۔
گامے کی بیوی اس کو بتاتی ہے کہ
تمہیں کیا معلوم کی جنگل میں کئی طرح کے کئی قسم کے درخت ہوتے ہیں ،۔ پتہ نہیں بابے آدم کو کتنے درختوں پر چڑھ چڑھ کر کتنے پتے آماں حّوا کو دیکھانے پڑتے ہوں گے ،۔
درختوں پر چڑھتے اترتے بابا جی ہلاکان ہو جاتے ہوں گے ،۔
ان کے مقابلے میں تم نے کیا کیا ؟
وہاں گلی میں کھڑے ، پانچئے اٹھائے ہوئی عورتوں کی پنڈلیاں تاڑ رہے تھے ،۔
ہیں ؟
گاما لاجواب ہو کر بیوی کا منہ ہی تکتا رہ گیا م،۔
شیرانوالہ باغ سےمڑ کر پھاٹک پار کر کے ڈنگروں کے ہسپتال کے سامنے تھے جب گامے کی بیوی اس سے پوچھتی ہے ،۔
تمہاری سالگرہ بھی تو آ رہی ہے تم اپنی برتھ ڈے پر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟؟
گامے نے ٹھنڈی آھ بھری اور کراھ کر کہتا ہے ،۔
ایک دفعہ بس ایک دفعہ ، صرف سالگرہ پر نہیں کسی بھی دن بس ایک دفعہ میں کسی بحث میں تم سے جیتنا چاہتا ہوں م،۔

خاور کھوکھر کے قلم سے ،۔

Khawar khokhar
خاور کھوکھر

اک دن سسکھا سنگھ کہنے لگا !،۔۔
پاء خاور ، میرے دل میں ایک کہانی ہے جو میں نے کسی دن لکھنی ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کب لکھنی ہے ؟ کہنے لگا کسی دن کبھی نہ کبھی۔
میں پوچھا کہ اگر کہانی کو خفیہ نہیں رکھنا چاہتے تو اسکا پلاٹ مجھے بھی سناؤ!۔
پاء خاور اپ سے کیا خفیہ رکھنا ہے ، فرانس انے کے بعد اپ ہی تو ایک بندے ملے ہو جو اپنے اپنے سے لگتے ہو اور دل کا حال تک کھول سنانے کو جی کرتا ہے ۔
سُکھا سنگھ، انڈیا والے پنجاب کے کسی گاؤں کا تھا، جو کہ انڈیا سے ماسکو تک ہوائی جہاز پر بیٹھ کر پہنچا تھا اور اس کے بعد کا سفر ، ماسکو سے پیرس تک کا، ایجنٹ کے ساتھ پیدل ، کنٹینروں اور ڈنکیاں لگا لگا کر کیا تھا۔
سُکھا اس سفر کی روداد سناتا رہتا تھا ، یورپ میں انٹر ہونے کے اس سفر میں بیمار ہو کر رہ جانے والے ساتھیوں کا ذکر ، اور ان کا ذکر بھی جو اس سفر میں جان کی بازی ہار گئے ۔
گوجرانوالہ کے ایک لڑکے کا بھی ذکر کیا کرتا تھا ، جو کہ مکیش کا گایا ہوا ایک گیت کنگناتا رہتا تھا ۔
دنیا بنانے والے ، کیا تیرے دل میں سمائی ۔
سُکھا سنکھ کہا کرتا تھا
پاء خاور ، وہ منڈا ایک گریٹ آدمی تھا ، جو کہ ٹولی کے سبھی لوگوں کے دکھ درد تو بٹاتا ہی تھا ، روز مرہ کے کاموں میں بھی بہت مدد کرتا تھا ، کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ منڈا نہ ہوتا تو شائد میں بھی کہیں حوصلہ ہار چکا ہوتا ۔
اور یہاں فرانس میں آ کر پاء خاور ، اپ کے ساتھ معاملہ پڑا ہے تو اپ بھی گریٹ بندے ہو ، گوجرانوالہ کا نام سنا تھا ایک تو راجہ رنجیت سنکھ کی رجہ سے اور دوسرا امرتا پریتم کی وجہ سے ، اور معاملہ پڑا تو یورپ کے سفر میں جو دو گریٹ بندے ملے وہ بھی گوجرانوالہ کے ہی نکلے ۔
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ جب یورپ کے کسی ملک کے کاغذ مل جائیں تو پاکستان جا کر گوجرانوالہ دیکھوں ۔

اس طرح کی باتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں
کہ کہانی کی بات کا بھی دو تین دفعہ ذکر ہوا تو
ایک دن لنچ کے وقفے میں سُکھا سنگھ نے اپنے “ من” میں موجود کہانی کا پلاٹ سنانا شروع کیا ۔
پاء خاور کہانی تو بڑی لمبی کر کے لکھوں گا میں لیکن اپ کو مختصر کر کے بتاتا ہوں ، کیونکہ اپ کو ماسکو سے پیرس تک کے دکھوں کی تفصیل تو معلوم ہی ہے ، اس لئے ہم اُن دکھوں کی تکرار کو چھوڑ کر بات کرتے ہیں ۔
ایک لڑکا
انڈیا میں پنجاب کے کسی گاؤں میں کسی عام سے گھر میں پیدا ہو کر جوان ہوتا ہے ۔
جس نے باہر کی کمائی کے جلوے دیکھے ہوتے ہیں ۔
ایجنٹ کو پیسے دے کر یورپ کو روانہ ہوتا ہے ۔
ماسکو سے پیرس تک کے سفر میں کئی دفعہ بیمار ہو کر مرتے مرتے بچتا ہے ۔
بھوک سے اپنی انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز سے بھی اسی سفر میں آشناء ہوتا ہے ۔
پاء خاور ! بھوک سے انتڑیوں کے چٹخنے کی آواز تو سنی ہو گی نہ ؟
پاء خاور تم مسلمانوں میں رمضان کے روزے ہوتے ہیں نہ ؟ اس لئے پوچھا ہے !۔
میں سکھے کو یہ نہ بتا سکا کہ “جس بھوک “ کی تم بات کر رہے ہو ، وہ بھوک روزے سے بہت ہی وراء قسم کی چیز ہوتی ہے ، جس میں افطاری کے ٹائم کا علم نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ ۔ !۔
سکھا بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ۔
پنجاب میں صحرا کی گرمی کی کہانیاں تو سنی تھیں ، اور پوھ ، مانگھ کے مہینوں کی سردی بھی دیکھی ہوئی تو تھی ، لیکن برف کا جہنم ، نہ کسی سے سنا تھا اور نہ اس جہنم کا تصور ہی تھا ۔
برف کے اس جہنم میں پاؤں کی انگلیاں گل کر پیک پڑتی دیکھی اور اس درد سے جوانی میں مر جانے والے ساتھیوں کے چہرے یادوں کی سکرین پر ثبت سے ہی ہو کر رہ گئے ۔
مختصر یہ کہ
ساری مصیبتیں اور دکھ اپنی جان پر جھیل کر جب پیرس پہنچتا ہے تو؟
ہمالیہ سے بڑا سوال یہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ رہوں گا کہاں ؟
اپنے گاؤں کے لڑکوں کے پاس جاتا ہے تو ، ان کی اپنی پریشانیوں اور مجبوریاں ہوتی ہیں کہ کوئی کسی کے ساتھ رہ رہا ہے اور کسی کے ساتھی اس کے گاؤں کے تعلقات پسند نہیں کرتے ۔
ایک گھر میں جب کچھ ساتھی اس کو اس شرط پر رکھ ہی لیتے ہیں کہ
اج سے تمہارا خرچا شروع ہے ، اور تم پر قرض کی ادائیگی فرض ہو گی کہ جیسے ہی کام ملے یہ رقم ادا کرو گے۔
انہی دوستوں میں سے کسی سے رقم ادھار لے کر جب وہ لڑکا ٹیلی فون کرنے والا کاڑد خرید کر ، انڈیا میں گھر فون کرتا ہے تو ؟
فون اس کا باپ اٹینڈ کرتا ہے ۔
ابا، میں پیرس پہنچ گیاں !۔
ابا کہتا ہے ، شکر ہے او رب دا ، بس پتر اب تو دل لگا کر کام کرو، تمہیں تو علم ہی ہے کہ کتنا قرضہ ادا کرنا ہے ، تمہاری بہن کی شادی کرنی ہے ،۔ میری دوا کا بھی خرچا ہے ، بس پتر اب تم نے کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہے کام کرنے میں ۔
ابے کے بعد چھوٹا بھائی فون پکڑ لیتا ہے ۔

پاء میں نے بائک لینی ہے تمہیں تو علم ہی ہے کہ وہ پڑوسیوں نے پچھلے سال نئی بائک نکلوائی تھی اب ہمارے پاس بھی بائک نہ ہو تو عزت نہیں رہتی ۔
چھوٹے بھائی کے بعد بہن فون پکڑ لیتے ہیں ۔
ہائے میریاں تے دعاواں قبول ہو گیاں نئیں ۔ رب نے بڑا کرم کیتا ہے میرا ویر اپ پیرس پہنچ گئے ہو
اب مجھے سونے کے گہنے بنوا کر دینے ہیں کالج جانے کے لئے میرے پاس اچھے اچھے سوٹ بھی نہیں ہیں وہ بھی بنوا کر دینے ہیں ۔اور جیب خرچ ہر مہینے مجھے علیحدہ سے ہی بھیج دیا کرنا ۔
ٹیلی فون کارڈ کے یونٹ ختم ہونے کو تھے
جب ماں کو فون پر بات کرنے کا موقع ملا ۔
ست سری اکال ، کو ماں نے سنا ان سنا کر دیا اور ماں کے منہ سے نکلا
وئے سُکھیا! روٹی بھی کھائی ہے کہ نہیں ؟
کہ لائین کٹ گئی !۔
فون کارڈ کے یونٹ ختم ہو گئے تھے ۔
تحریر خاور کھوکھر

*******************************

خاور کھوکھر ، گوجرانوالا کے مردم خیز شہر کے نواحی قصبے تلونڈی موسے خان سے تعلق رکھتے ہیں ،۔
اردو کے بلاگروں میں قدیم ترین اور ایکٹو بلاگر ہیں ،۔
بلاگ کا لنک
https://khawarking.blogspot.jp
سوشل میڈیا پر ٹوئٹر ، فیس بک پر مصطفٰے خاور کے نام سے لکھتے ہیں ،۔
جاپان سے اردو کی اون لائین نیوز سائٹ بھی چلاتے ہیں ،۔
جاپان متعلق اردو کی سب سے بڑی سائٹ
http://gmkhawar.net/
خاور کھوکھر ، ایک تخلیقی رائیٹر ،نثر نگار ہیں ،۔ ان کی تحاریر گوجرانوالہ کی سائیٹ پر وقتاً فوقتاً شائع کیا جاتی رہیں گی ،۔

 

آداب ۔

Today I sent the invitation to like this website, people to whom I think belong to Gujranwala .
I hope you would like this website and connecting page on Facebook too .

اج اس سائیٹ کے فیس بک پیج کو لائک کرنے کے لئے میں نے اہنے احباب کو انویٹیشن بھیجی ہے م، اور کچھ کو اس پیج کا ایڈمن بنا کر ای میل بھی سینڈ کی ہے ،۔
امید ہے کہ اپ میری یہ کوشش پسند آئے گی ،۔
میں خود چونکہ پاکستان میں نہیں ہوں اس لئے مجھے آپ احباب کی اور اپ کے ان دوستوں کے تعاون کی ضرورت رہے گی جو لوگ اس سائیٹ کو اپنی سمجھ کر چلا سکیں ،۔

یہ ایک نان پروفٹ ایبل پراجیکٹ ہے ،۔